اسی مضمون پر قرآن سے دیگر آیات ملاحظہ کیجیے
سورة الرعد
الَّذِينَ يُوفُونَ بِعَهْدِ اللّهِ وَلاَ يِنقُضُونَ الْمِيثَاقَ {20} وَالَّذِينَ يَصِلُونَ مَا أَمَرَ اللّهُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَيَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَيَخَافُونَ سُوءَ الحِسَابِ {21} وَالَّذِينَ صَبَرُواْ ابْتِغَاء وَجْهِ رَبِّهِمْ وَأَقَامُواْ الصَّلاَةَ وَأَنفَقُواْ مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلاَنِيَةً وَيَدْرَؤُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ أُوْلَئِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ {22} جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ وَالمَلاَئِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِم مِّن كُلِّ بَابٍ {23} سَلاَمٌ عَلَيْكُم بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ {24
اُن لوگوں کا طرزِ عمل یہ ہوتا ہے کہ اللہ کے ساتھ اپنے عہد کو پورا کرتے ہیں، اُسے مضبوط باندھنے کے بعد توڑ نہیں ڈالتے۔ اُن کی روش یہ ہوتی ہے کہ اللہ نے جن جن روابط کو برقرار رکھنے کا حکم دیا ہےانہیں برقرار رکھتے ہیں، اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور اِس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ کہیں ان سے بری طرح حساب نہ لیا جائے۔ اُن کا حال یہ ہوتا ہے کہ اپنے رب کی رضا کے لیے صبر سے کام لیتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے عَلانیہ اورپوشیدہ خرچ کرتے ہیں، اور برائی کو
بھلائی سے دفع کرتے ہیں۔ آخرت کا گھر انہی لوگوں کے لیے ہے۔ یعنی ایسے باغ جو اُن کی ابدی قیامگاہ ہوں گے۔ وہ خود بھی ان میں داخل ہوں گے اور اُن کے آباؤ اجداد اور
اُن کی بیویوں اور اُن کی اولاد میں سے جو جو صالح ہیں وہ بھی اُن کے ساتھ وہاں جائیں گے۔ ملائکہ ہر طرف سے اُن کے استقبال کے لیے آئيں گے اور اُن سے کہیں گے”تم پر سلامتی ہے ، تم نے دنیا میں جس طرح صبر سے کام لیا اُس کی بدولت آج تم اِس کے مستحق ہوئےہو“_______پس کیا ہی خوب ہے یہ آخرت کا گھر۔
سورة غافر
الَّذِينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَّحْمَةً وَعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ {7} رَبَّنَا وَأَدْخِلْهُمْ جَنَّاتِ عَدْنٍ الَّتِي وَعَدتَّهُم وَمَن صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ {8} وَقِهِمُ السَّيِّئَاتِ وَمَن تَقِ السَّيِّئَاتِ يَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمْتَهُ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ {9
عرش الٰہی کے حامل فرشتے، اور وہ جو عرش کے گرد و پیش حاضر رہتے ہیں ، سب اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کر رہے ہیں۔ وہ اُس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان لانے والوں کے حق میں دعائے مغفرت کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں:”اے ہمارے رب ، تو اپنی رحمت اور اپنے علم کے ساتھ ہر چیز پر چھایا ہوا ہے، پس معاف کردے اور عذابِِ دوزخ سے بچالے اُن لوگوں کو جنہوں نےتوبہ کی ہے اور تیرا راستہ اختیار کرلیا ہے۔ اے ہمارے رب ، اور داخل کر ان کو ہمیشہ رہنے والی اُن جنتوں میں جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے۔اوران کے والدین اور بیویوں اور اولاد میں سے جو صالح ہوں(اُن کو بھی وہاں اُن کے ساتھ ہی پہنچا دے)۔ تو بلا شبہ قادرِ مطلق اور حکیم ہے۔اور بچادےاُن کو برائیوں سے۔ جس کو تُو نے قیامت کے دن برائیوں سے بچادیا اُس پر تو نے بڑا رحم کیا، یہی بڑی کامیابی ہے۔“